Friday, May 8, 2020


UMAR UL MUKHTAR


تمہاری آخری خواہش؟ جج نے ان طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
انہوں نے ایک نظر اٹلی کے طرز انصاف پہ ڈالی اور جج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ "انا للہ و انا الیہ راجعون"
یہ الفاظ لیبیا کے تہتر سالہ معمر لیڈر عمر المختار امعروف "صحرا کا شیر" کے ہیں۔ جب انہیں گرفتار کر کے ان پر اطالوی عدالت میں نام نہاد مقدمہ چلایا گیا اور اس میں انہیں سزائے موت سنائی گئی.
1911 کے اواخر میں جب اطلوی جہازوں پر مشتمل بحری بیڑا لیبیا کے ساحلوں پر پہنچا تو فارفیلی نے لیبیا کو ہتھیار ڈالنے کو کہا۔ طرابلس کے شہری پہلے ہی شہر خالی کر چکے تھے (جو ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے) لیکن وہ کافر ہی کیا جو اپنے وعدے کی پاسداری کرے۔ انہوں تین دن تک شہر پر بے پناہ بمباری کی۔ یہیں سے اٹلی اور لیبیا کے درمیان جنگ کی ابتداء ہوئی جو تقریبا 20 سالوں تک جاری رہی۔ عمر المختار ایک استاد بھی تھے اور صحرا کے بھیدی بھی۔ انہوں نے لیبیا کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کا آغاز کیا اور ان کی گوریلا کاروائیوں کو آج بھی عسکری درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ عمر المختار نے اپنی صحراء سے واقفیت اور جنگی مہارت کو اطالویوں کے خلاف خوب استعمال کیا۔ انہوں نے ہمیشہ چھوٹی چھوٹی تکڑیوں کی صورت میں اطالوی فوجوں کی چوکیوں، کیمپوں اور کانوائے پر حملہ کیا اور شدید نقصان پہنچایا۔ کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے یہ لوگ آسانی سے صحراء میں گم ہو جاتے اور کچھ وقت کے بعد کسی دوسری جگہ پر نمودار ہو کر دوبارہ حملہ آوار ہوتے اور دشمن کو نقصان پہنچاتے۔ جنگ کا یہ طریقہ کار عمر المختار نے صلاح الدین ایوبی سے اور افغانوں نے عمر المختار سے مستعار لے کر اپنے اپنے وقتوں کی سپر پاورز کو زمین بوس کیا۔ اطالوی فوج اپنے بے پناہ سرمائے اور فوجوں کا ساتھ ہوتے ہوئے عمر المختار کو تلاشنے میں ناکام رہے۔ عمر المختار نے ان کی رسد اور مواصلات کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا اور ہر ممکن کوشش کے باوجود وہ انہیں گرفتار یا شہد کرنے میں ناکام رہے۔ یہاں اطالویوں نے ایک نئی چال چلی انہوں نے عام شہروں کو عقوبت خانوں میں بند کر کے ان پر بدترین تشدد کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے تقریبا ڈیڑھ لاکھ کے قریب عورتوں، بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو زندانوں کی نظر کیا۔ ان میں ایک لاکھ سے زائد لوگ اطالویوں کے تشدد اور ہوس کا نشانہ بن کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس شدید ترین طرز عمل کے باوجود عمر المختار کے حملوں میں کمی کے بجائے شدت آ گئی۔ اٹلی کی کوشش تھی کہ اس طرح گرفتاریوں اور تشدد سے اس مزاحمتی تحریک کا رستہ روکا جا سکتا ہے۔ اسی طرز کو لے آج ہندوستان بھی کشمیر کو جیل بنا کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور تحریک آزادی کو کچلنا چاہتا ہے۔ اب بھلا اسے کون بتائے کہ اس طرح تحریکیں رکتی نہیں بلکہ زیادہ شدت ست ابھرتی ہیں۔ اسی طرح بے سر و سامانیوں کی کوکھ سے آزادی کی روشن صبح جنم لیا کرتی ہے۔ 
ایک کاروائی کے دوران عمر المختار شدید زخمی ہو کر گرفتار ہو گئے۔ انہیں بھاری بیڑیاں اور زنجیریں پہنا دی گئیں اور ان پر بدترین تشدد کیا گیا۔ جب ان پر تشدد کیا جاتا تو وہ دشمن کی آںکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے اور دشمن جھلا کر انہیں مزید زد و کوب کرتا۔ اس وقت ان کی عمر ستر سال تھی۔ اٹلی ہی کی قائم کردہ عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزائے موت سنائی گئی اور 16 ستمبر 1931 کو انہیں سرعام پھانسی دے دی گئی۔ 
اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے
******

2 comments: