Hazrat Ali (as)
حضرت علی(ع) کا یہودی سے مقدمہ ہارنا
حضرت علی(ع) کی زرہ گم ہو گئی تھی۔ زرہ اس آہنی لباس کو کہا جاتا ہے جو جنگوں میں دشمنوں کی تلواروں کی ضرب سے بچنے کے لئے پہنا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد امام علی (ع) نے کسی اہل کتاب کے پاس وہ زرہ دیکھی۔ بعض روایات میں عیسائی درج ہے اور بعض میں یہودی۔ لیکن مشہور یہودی ہے۔
حضرت علی(ع) نے اس یہودی سے مطالبہ کیا کہ یہ میری زرہ ہے مجھے واپس کرو۔ اس پر اس نے کہا کہ زرہ تو میرے پاس ہے، آپ کا اس پر دعوی ہے تو ثابت کریں۔ (کیونکہ اصولی و قانونی طور پر چیز اس کی ملکیت سمجھی جاتی ہے جس کے پاس وہ چیز موجود ہو، مگر یہ کہ کوئی دلیل ایسی ہو جس سے معلوم ہو کہ چیز اس کی نہیں)۔
حضرت علی(ع) اس کو لے کر قاضی کے پاس چلے جاتے ہیں۔ زمانہ بھی حضرت علی(ع) کی خلافت کا تھا۔ قاضی کے پاس جا کر آپ نے شکایت کی کہ یہ زرہ میری ہے، میں نے کسی کو بیچی نہیں، اور گمشدہ تھی، اب اس یہودی کے پاس سے نکلی ہے۔ قاضی نے یہودی کی طرف رخ کیا اور کہا کہ خلیفۂ مسلمین کا یہ دعوی ہے، اب تمہارا کیا خیال ہے۔
اس پر اس یہودی نے کہا کہ زرہ میری اپنی ہے، ممکن ہے کہ خلیفہ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ قاضی نے پھر امام علی(ع) کی طرف رخ کیا اور کہا کہ یہ شخص انکار کر رہا ہے کہ زرہ آپ کی ہے، اب آپ پر ہے کہ آپ اپنے دعوی کے اثبات کے لئے گواہ پیش کریں۔ اس پر امام علی(ع) مسکرائے اور فرمایا کہ تم صحیح کہہ رہے ہو، اس صورتحال میں گواہ لانے کی ذمہ داری میری ہے لیکن میرے پاس کوئی گواہ نہیں۔
قاضی نے یہ سنا تو یہودی کو زرہ واپس کر دی اور فیصلہ امام علی(ع) کے خلاف سنا دیا۔ یہودی نے اپنی زرہ اٹھائی اور چل دیا لیکن کچھ قدم چل کر واپس پلٹا اور کہا: "یہ طرز حکومت عام لوگوں کی طرح نہیں ہے، یہ انبیاء کی حکومت کی مثل ہے۔"
اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوا اور قاضی کو بتایا کہ یہ امام علی(ع) کی زرہ ہے جو جنگ صفین سے واپسی پر ایک خاکی گھوڑے سے گر گئی تھی اور میں نے اٹھا لی۔ امام علی(ع) نے جب یہودی کا اعتراف اور اس کے قبول اسلام کو دیکھا تو زرہ اس کو بخش دی۔
وہ شخص اس قدر خوش ہوا کہ امام علی(ع) کے سچے ساتھیوں میں سے ہوا، اور بعض روایات کے مطابق خوارج کے خلاف جنگ نہروان بھی لڑی۔
یہ روایت 'مناقب ابن شہر آشوب؛ ج 2 ص105' اور بحارالانوار کی ج41 میں ص54 پر اور 34ویں جلد کی ص316 پر بھی ہے۔
اہلسنت کی تاریخ میں 'کامل ابن اثیر ج 3، ص 401' اور 'الغارات ج1 ص74' اور 'اخبار القضاة، ج 2، ص 200' پر بھی موجود ہے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
سبحان اللہ
ReplyDelete