Saturday, May 9, 2020

Kashmir


KASHMIR IS BURNING




           Kashmir is the disputed territory since ab initio i.e., partition (1947). This was done by the English Ruler ruling at Pak o Hind. He with the connivance of some Hindus performed this illegality and included Kashmir with the Hindustan. Since then, the Kashmiries are suffering in pain. India is trying to give them every kind of  opression and exploitation. 

                India imposed about six Lac Army in Kashmir. The Kashmiries are in trouble since then. In these days, there is curfew in India. Now they are in severe pain. No one is allowed to enter in the territory of Kashmir. 

                Yesterday, I was watching the press conference of Indian actor Mr. Shatrugan Sinha, who was saying that India is trying to overcome the poor Kashmiries. He further elaborated that India is playing a
foul in Kashmir by imposing curfew over there. In this way, the Indian Prime Minister has ruined the democracy. He criticised the Indian Government that Indian is being entered into worst economic situation. This is the reason that India is losing its position in the world. He further criticised that no one is giving respect to Indian Government. He praised the Pakistan as compared to India. 


            Now, we are crossing the 21st century. Everyone is more wise and sensible than before. Now the people know the real meaning of democracy. Everyone know the political economical situations facing the different countries in the world. Now, the India should respect  the freedom of Kashmiries in Kashmir. 

                India should announce the the free and fair election over there. Now, the dispute should be ended and they may lead free and democratic life like other countries in the world.
                Insha Allah, a day will come when the Kashmiries will lead their lives in a free atmosphere. We will see that day by the grace of God. We pray to God for their early freedom. 

         PAKISTAN ZINDABAAD.
         KASHMIR ZINDABAAD.

                                   *******

Friday, May 8, 2020

Laughing Time



TIME TO LAUGH




استاد نے اسٹوڈنٹ سے پوچھا کہ ناکام عشق اور مکمل عشق میں کیا فرق ہوتا ہے؟

اسٹوڈنٹ نے جواب دیا؛

ناکام عشق بہترین شاعری کرتا ہے، غزلیں اور گیت گاتا ہے، پہاڑوں میں گھومتا ہے۔ عمدہ تحاریر لکھتا ہے۔ دل میں اتر جانے والی موسیقی ترتیب دیتا ہے۔ ہمیشہ امر ہوجانے والی مصوری کرتا ہے۔ 

مکمّل عشق سبزی لاتا ہے، آفس سے واپس آتے ہوئے آلو، گوشت، انڈے وغیرہ لاتا ہے۔ لان کی سیل کے دوران بچوں کو سنبھالتا ہے۔ پیمپر خرید کر لاتا ہے۔ تیز بارش میں گھر سے نہاری لینے کے لیے نکلتا ہے۔ سسرال میں نظریں جھکا کر بیٹھتا ہے۔ ماں بہنوں سے زن مریدی کے طعنے سنتا۔ اور پھر گھر آ کر یہ بھی سنتا ہے کہ آپ کتنے بدل گئے ہیں۔ شادی سے پہلے کتنے اچھے تھے۔

آپ پڑھیں میں زرا انڈے,  اور دودھ لے آؤں

🤣 😍😋


*******

Murshad


MURSHAD



۔ مُرشد ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ نفس کی غذا کو نار کے بجائے نور میں تبدیل کر دینے والے کو مرشد کہتے ہیں ۔ مرشد کوئی نئی مُحبت عطا نہیں کرتا بلکہ آپکی ہی محبت والی روح کو دُرست راستہ یعنی اللہ دکھاتا ہے ، الصراط المستقيم ۔ کوئی عمل نہیں ہے بلکہ اُسکا راستہ ہے جس پر انعام ہوا ۔ مخلوق میں تلاش کریں کہ انعام کس کس پر ہوا ہے ۔ ؟  انہی پر جن کی ارواح زندگی اور نور سے بھری ہوتی ہیں ، ذات باری تعالی سے تعلق والی ہیں ۔ 
۔
۔ تصوف صفائی کے علم کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں تصوف کے لفظ کا ذکر نہیں لیکن تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب ہے یہی علم  حاصل کرنے والے کو تصوف کا طالب علم اور اسی طالب کو صوفی کہتے ہیں جو کہ کسی رشد و ہدایت دینے والے کے بغیر ہرگز ممکن نہیں  ۔ 
۔
۔ صوفی بنے گا تو روحانیت یعنی باطن کا علم شروع ہو گا ۔ کیونکہ روحوں میں غلاضت نہیں ہوتی تو صفائی کیسی  ؟  صفائی تو نفس و دل کی کرنی ہے اسے ہی شریعت بھی کہتے ہیں ۔ ارواح کو بیدار کرنا ہوتا ہے اسے ہی روحانیت کہتے ہیں,  باطن روح کی بیداری اور دل کی صفائی نہیں بلکہ دل کی زندگی کا علم ہے تاکہ صالح اور مقرب ہو ۔ مقرب یعنی قریب ترین ، اگر اسی ذندگی میں دیدار الہی پر یقین نہیں ہے تو پھر آپ اپنی گزرتی عمر میں ذات کے قرب والے کیسے ہوں گے ؟ ۔۔ بغیر ذات کے دیدار کے ذات کا قرب سمجھ سے باہر ہو گا ۔
۔
۔ جتنا زیادہ روح میں نور ہو اتنا ہی قلب اور جسم میں ایمان ہوتا ہے ، ایمان صرف یقین ہی کا نام نہیں ۔ یوم ازل سے پہلے جلوہ الہی ، قرب الہی اور محبت الہی والی ارواح بنائی گئی پھر یوم ازل کو " کُن " فرما کر جنتی اور دوزخی ارواح بنائیں گئی تھیں ۔ 
۔
۔ مرشد مُحبت والی روح کو روحانیت سکھاتا ہے کیونکہ اسکے اندر جو ذاتی نور ہوتا ہے وہ روح  اسکے ادب کو قبول کرنےوالی ہوتی ہے ، روحانیت کی تعلیم یعنی وہ عمل جو روحیں کریں ، روحیں ہوش میں ہوں گی تو پھر ہی آپ روح کے تعلق والے ہوں گے ، اللہ والے یعنی ( جلوہ ، قرب اور مُحبت والے )  جوکہ یوم ازل اور کُن فرمانے سے پہلے کے ہیں ، اسی لیئے یہ اللہ والے بس اللہ ہی سے تعلق کی بات کرتے ہیں جنت کی جستجو یا دوزخ کے خوف کی نہیں ۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو قرآن کریم قیامت کے خوف اور جنت کی امید سے بھرا ہے لیکن اللہ والے اللہ سے محبت اور قرب و دیدار کی بات کرتے ہیں اسکا مطلب ہے اللہ والے اس نور کی بات بھی کرتے ہیں جو کہ اللہ کی ذات کا ہے صرف صفات ہی کا نہیں کیونکہ قرآن ذات کی طرف سے قانون شریعت اور صفت رب العالمین ہے مخلوق کے لیئے یعنی قرآن ذات تک رسائی کا زریعہ ہے ، اس لیئے ہمیں ذات کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے دراصل جس کو پہچاننا اور اس سے تعلق بنانا ہے ۔ 
۔
۔ اللہ کو انسان کوشش سے نہیں پا سکتا بلکہ وہ اپنی مرضی سے ملتا ہے ، اس لیئے ہمیشہ وہ نور اپنے اندر ذکر اور تصور سے اکٹھا کریں جو ذاتی ہو اسکے اسم ذاتی  " اللہ " کا کیونکہ اسکی ذات اپنے ہی اس نور سے منسلک ہے جو آپکے اندر ہو گا۔ 
۔
۔ مخلوق میں سے جس کی روح میں اسم ذات بس جاتا ہے وہی روح الفقر تلاش کرتا رہتا ہے تاکہ اسکو اللہ کا ولی بنا دے ,  کیونکہ کُن فیکون سے بنی روح میں اسم ذات نہیں بستا بلکہ وہ صفت سے جڑی رہتی ہے ۔ اسم ذات اسی روح میں رہتا ہے جو جلوہ  ، قرب ، یا ، محبت والی ہو  دوسری روح ہمیشہ تنقید اپنے اندر رکھے گی اور وہ کچھ گمان کرے گی جو اسےحاصل ہونا ہے ، یہی نظام قدرت ہے اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہل سکتا ہر کام اسکے اپنے نظام سے ہو گا ۔
۔
۔ اللہ کریم ہم سب کو امام الانبیاء محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا ظرف اور ہنر عطا فرمائے اللہم آمین یا رب العالمین
******

Aik Qissa


AIK QISSA




"اشفاق احمد" لکھتے ہیں کہ ایک دن میں نیکر پہن کر سپارہ پڑھنے مسجد چلا گیا۔ مولوی صاحب غصے میں آ گئے، بولے: ارے نالائق تم مسجد میں نیکر پہن کر کیوں آ گئے؟
بے وقوف ایسے مسجد میں آؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے!!

میں نے گھر آ کر ماں جی کو بتایا تو ماں بولی: پتر مولوی صاحب غصے میں ہوں گے جو انھوں نے ایسا کہہ دیا ورنہ بیٹا جہنم میں جانے کے لیے تو بڑی سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہنم حاصل کرنے کے لیے پتھر دل ہونا پڑتا ہے۔ جہنم لینے کے لیے دوسروں کا حق مارنا پڑتا ہے، قاتل اور ڈاکو بننا پڑتا ہے، فساد پھیلانا پڑتا ہے، مخلوقِ خدا کو اذیت دینی پڑتی ہے، نہتے انسانوں پر آگ اور بارود کی بارش کرنا پڑتی ہے، محبت سے نفرت کرنا پڑتی ہے، اس کے لیے ماؤں کی گودیں اجاڑنی پڑتی ہیں، رب العالمین اور رحمت للعالمین سے تعلقات توڑنے پڑتے ہیں، تب کہیں جا کر جہنم ملتی ہے۔ تُوں تو اتنا کاہل ہے کہ پانی بھی خود نہیں پیتا۔ تجھ سے یہ محنت کیونکر ہوسکے گی؟ تُوں تو چڑیا کی موت پر ہفتوں روتا رہتا ہے پھر تُو اتنا پتھر دل کیسے بن سکتا ہے؟
******

Shaitan ke war


SHAITAAN KE WAAR


صرف ایک چیز کے استعمال سے روکا گیا تھا.!

" اے آدم، تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ جہاں سے چاہو. مگر اس درخت کے پاس نہ جانا... ( 19 الاعراف)
جنت اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ آدم اور ان کی بیوی کے لئے کھلی ہوئی تھی.
اس میں طرح طرح کی چیزیں تھیں اور خدا کی طرف سے ان کو آزادی تھی کہ ان کو جس طرح چاہیں استعمال کریں.
بے شمار جائز چیزوں کے درمیان صرف ایک چیز کے استعمال سے روک دیا گیا تھا...... شیطان نے اسی ممنوعہ مقام سے ان پر حملہ کیا.
اس نے وسوسہ اندازیوں کے ذریعے سکھایا کہ جس چیز سے تمہیں روکا گیا ہے وہی جنت کی اہم ترین چیز ہے. اسی میں تقدس اور ابدیت کا سارا راز چھپا ہوا ہے.
آدم اور ان کی بیوی ابلیس کی مسلسل تلقین سے متاثر ہو گئے اور بالآخر ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا.
مگر جب انہوں نے ایسا کیا تو نتیجہ ان کی توقعات کے بلکل برعکس نکلا......... ان کی اس خلاف ورزی نے خدا کا لباس حفاظت ان کے جسم سے اتار دیا.
وہ اس دنیا میں بلکل بے یار و مددگار ہو کر رہ گئے جہان اس سے پہلے ان کو ہر طرح کی سہولت اور حفاظت حاصل تھی.
شیطان اپنا یہ کام ہر ایک کے ساتھ اس کے اپنے ذوق اور حالات کے اعتبار سے کرتا ہے...... کسی کو تمام قیمتی غذاؤں سے بے رغبت کر کے یہ سکھاتا ہے کہ شاندار تندرستی حاصل کرنا ہو تو شراب پیو...... کہیں لاکھوں بے روزگار مرد کام کرنے کے لئے موجود ہوں گے مگر وہ ترغیب دے گا کہ اگر ترقی کی منزل تک جلد پہچنا چاہتے ہو تو عورتوں کا گھر سے باہر لا کر انھیں مختلف تمدنی شعبوں میں سرگرم کر دو.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا وہ خاص حربہ کیا ہے جس سے وہ انسان کو بہکا کر خدا کی رحمت و نصرت سے دور کر دیتا ہے....... وہ ہے حلال رزق کے پھیلے ہوئے میدان کو آدمی کی نظر میں کمتر کر کے دکھانا اور جو چیزیں حرام ہیں ان کو خوبصورت طور پر پیش کر کے یقین دلانا کہ تمام بڑے بڑے فائدوں اور مصلحتوں کا راز بس انھیں چند چیزوں میں چھپا ہوا ہے.


*******




UMAR UL MUKHTAR


تمہاری آخری خواہش؟ جج نے ان طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
انہوں نے ایک نظر اٹلی کے طرز انصاف پہ ڈالی اور جج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ "انا للہ و انا الیہ راجعون"
یہ الفاظ لیبیا کے تہتر سالہ معمر لیڈر عمر المختار امعروف "صحرا کا شیر" کے ہیں۔ جب انہیں گرفتار کر کے ان پر اطالوی عدالت میں نام نہاد مقدمہ چلایا گیا اور اس میں انہیں سزائے موت سنائی گئی.
1911 کے اواخر میں جب اطلوی جہازوں پر مشتمل بحری بیڑا لیبیا کے ساحلوں پر پہنچا تو فارفیلی نے لیبیا کو ہتھیار ڈالنے کو کہا۔ طرابلس کے شہری پہلے ہی شہر خالی کر چکے تھے (جو ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے) لیکن وہ کافر ہی کیا جو اپنے وعدے کی پاسداری کرے۔ انہوں تین دن تک شہر پر بے پناہ بمباری کی۔ یہیں سے اٹلی اور لیبیا کے درمیان جنگ کی ابتداء ہوئی جو تقریبا 20 سالوں تک جاری رہی۔ عمر المختار ایک استاد بھی تھے اور صحرا کے بھیدی بھی۔ انہوں نے لیبیا کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کا آغاز کیا اور ان کی گوریلا کاروائیوں کو آج بھی عسکری درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ عمر المختار نے اپنی صحراء سے واقفیت اور جنگی مہارت کو اطالویوں کے خلاف خوب استعمال کیا۔ انہوں نے ہمیشہ چھوٹی چھوٹی تکڑیوں کی صورت میں اطالوی فوجوں کی چوکیوں، کیمپوں اور کانوائے پر حملہ کیا اور شدید نقصان پہنچایا۔ کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے یہ لوگ آسانی سے صحراء میں گم ہو جاتے اور کچھ وقت کے بعد کسی دوسری جگہ پر نمودار ہو کر دوبارہ حملہ آوار ہوتے اور دشمن کو نقصان پہنچاتے۔ جنگ کا یہ طریقہ کار عمر المختار نے صلاح الدین ایوبی سے اور افغانوں نے عمر المختار سے مستعار لے کر اپنے اپنے وقتوں کی سپر پاورز کو زمین بوس کیا۔ اطالوی فوج اپنے بے پناہ سرمائے اور فوجوں کا ساتھ ہوتے ہوئے عمر المختار کو تلاشنے میں ناکام رہے۔ عمر المختار نے ان کی رسد اور مواصلات کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا اور ہر ممکن کوشش کے باوجود وہ انہیں گرفتار یا شہد کرنے میں ناکام رہے۔ یہاں اطالویوں نے ایک نئی چال چلی انہوں نے عام شہروں کو عقوبت خانوں میں بند کر کے ان پر بدترین تشدد کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے تقریبا ڈیڑھ لاکھ کے قریب عورتوں، بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو زندانوں کی نظر کیا۔ ان میں ایک لاکھ سے زائد لوگ اطالویوں کے تشدد اور ہوس کا نشانہ بن کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس شدید ترین طرز عمل کے باوجود عمر المختار کے حملوں میں کمی کے بجائے شدت آ گئی۔ اٹلی کی کوشش تھی کہ اس طرح گرفتاریوں اور تشدد سے اس مزاحمتی تحریک کا رستہ روکا جا سکتا ہے۔ اسی طرز کو لے آج ہندوستان بھی کشمیر کو جیل بنا کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور تحریک آزادی کو کچلنا چاہتا ہے۔ اب بھلا اسے کون بتائے کہ اس طرح تحریکیں رکتی نہیں بلکہ زیادہ شدت ست ابھرتی ہیں۔ اسی طرح بے سر و سامانیوں کی کوکھ سے آزادی کی روشن صبح جنم لیا کرتی ہے۔ 
ایک کاروائی کے دوران عمر المختار شدید زخمی ہو کر گرفتار ہو گئے۔ انہیں بھاری بیڑیاں اور زنجیریں پہنا دی گئیں اور ان پر بدترین تشدد کیا گیا۔ جب ان پر تشدد کیا جاتا تو وہ دشمن کی آںکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے اور دشمن جھلا کر انہیں مزید زد و کوب کرتا۔ اس وقت ان کی عمر ستر سال تھی۔ اٹلی ہی کی قائم کردہ عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزائے موت سنائی گئی اور 16 ستمبر 1931 کو انہیں سرعام پھانسی دے دی گئی۔ 
اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے
******

Darood Shareef


DAROOD SHAREEF MUQADDAS




اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى 

إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ 

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى 

إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد

plz recite۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔